انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے بشیر بابا: ’11 سال قید کے بعد بے قصور ہوں تو میرا وقت بھی لوٹا دو

’ابتدا میں تو مُجھے نہایت چھوٹے سے کمرے میں تنہا قید کیا گیا تھا۔ میرا جسم اُدھر تھا لیکن رُوح گھر میں تھی۔ کئی سال بعد ایک رات خواب دیکھا کہ میرے والد کو کچھ لوگ غسل دے رہے ہیں۔ میں گھبرا کر جاگ گیا، تو مجھے اپنے دل میں ہلکا سا درد محسوس ہوا۔ پھر سب نارمل ہو گیا، لیکن دو مہینے بعد مجھے میرے وکیل نے بتایا کہ میرے والد صاحب نہیں رہے۔ میں نے تاریخ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اُس خواب کے دو دِن بعد وہ وفات پا گئے تھے۔‘

سرینگر کے رعناواری علاقے میں رہنے والے بشیر احمد بابا کو سنہ 2010 میں انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے انسداد دہشت گردی سکواڈ نے دارالحکومت احمد آباد سے اُس وقت گرفتار کر لیا تھا جب وہ گجرات میں ایک رضاکار تنظیم ’مایا فاوٴنڈیشن‘ کے تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔

43 سالہ بشیر بابا سائنس کی ڈگری لینے کے بعد سرینگر میں ایک کمپیوٹر ادارہ چلاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پیدائشی طور پر بچوں کے کٹے ہوئے ہونٹوں کے آپریشن کرنے میں والدین کی مدد کرنے والی ایک این جی او ’مایا فاوٴنڈیشن‘ کے ساتھ منسلک تھے۔

’میں نے کئی دیہات میں این جی او کے ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ کام کیا۔ پھر مجھے مزید تربیت کے لیے گجرات بلایا گیا۔ گجرات میں این جی او کے ہوسٹل میں قیام کے دوران ہی گجرات کے انسداد دہشت گردی سکواڈ نے مجھے اور بعض دیگر کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔‘

بشیر بابا کے دعوے کے مطابق ’گرفتار کیے گئے باقی افراد کو رہا کیا گیا، لیکن مجھے گجرات کی بروڈہ جیل میں منتقل کر دیا گیا۔‘

بشیر پر دھماکہ خیز مواد رکھنے اور انڈیا میں دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ سازی کے الزامات عائد کیے گئے۔ تاہم گذشتہ ہفتے انھیں گجرات کی ایک عدالت نے سبھی الزامات سے ’باعزت بری‘ کرنے کا حکم سنایا۔

بشیر 11 برس قید خانوں میں گزارنے کے بعد حال ہی میں گھر لوٹے ہیں، لیکن گھر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔

’مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ ہماری جو تھوڑی سی زمین تھی، جس پر میرا کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ تھا، وہ فروخت کر دی گئی ہے۔ دراصل میری عدم موجودگی میں گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے۔ میں ہی بڑا بیٹا تھا اور میں ہی جیل میں تھا۔ میرے والدین اور بھائی کو ملاقات کے لیے گجرات جانا پڑتا تھا، سفر اور وکیل کی فیس پر کافی پیسہ خرچ ہوا ہے۔‘

بہنوں کی شادی اور اُن کے ہاں بچوں کی پیدائش کی خبر برسوں بعد بشیر کو خطوط کے ذریعے ملتی تھی۔ خط اکثر تاخیر سے پہنچتے تھے اور بعد میں جیل حکام کی طرف سے اُن کی جانچ پڑتال میں بھی ہفتوں لگ جاتے تھے۔

بشیر کہتے ہیں کہ اُنھیں یقین تھا کہ عدالت سے بالاخر انصاف ملے گا۔ ’میں تو مطمئن ہوں کہ عدالت نے میری بے گناہی کا اعلان کر دیا لیکن میری زندگی کے 12 سال کون واپس کرے گا؟‘

بشیر نے جیل میں وقت گزارنے کے لیے نہ صرف مصوری کا فن سیکھا بلکہ سیاسیات، عوامی انتظامیہ، انٹلیکچوئل پراپرٹی اور دیگر تین مضامین میں اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگریاں امتیازی درجات کے ساتھ حاصل کی ہیں۔

’نصاب کی کتابیں جیل میں پہنچ جاتی تھیں اور میں پڑھائی میں مصروف ہو جاتا تھا۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان ہے کہ میں تعلیم مکمل کر سکا ہوں۔‘

 

جیل حکام سے بشیر کو کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ وہ اُن کے برتاوٴ سے متاثر ہیں، تاہم وہ بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’میرا وقت مجھے کون لوٹائے گا؟‘

اُن کی گرفتاری کے وقت اس وقت کے انڈین وزارت داخلہ کے سیکریٹری جی کے پِلائی نے اس گرفتاری کو ’دہشت گردی منصوبوں کو روکنے کے سلسلے میں بہت بڑی کامیابی‘ قرار دیا تھا۔

تاہم بشیر کے بری ہونے کے بعد پِلائی نے انڈین میڈیا میں یہ بیان دیا ہے کہ ’منصوبہ ساز اکیلا نہیں ہوتا، کئی بار کچھ لوگ غفلت میں کسی کی مدد کرتے ہیں، سکیورٹی ایجنسیوں کو چاہیے تھا کہ گرفتاریوں کو دو زمروں میں رکھتے، جو لوگ سازش میں براہ راست ملوث ہوں اُن کو الگ سے پیش کیا جاتا اور جنھوں نے غفلت میں صرف تعاون کیا ہے اُن کو الگ سے پیش کیا جاتا تاکہ ایسے لوگ خوامخواہ دہائیاں جیل میں نہ گزارتے۔‘

لیکن مسٹر پِلائی کا یہ بیان اتنی تاخیر سے آیا ہے کہ یہ بشیر بابا کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا۔

بشیر بابا کی ماں مُختہ بی بی کہتی ہیں کہ ’میں تو رو پڑی تھی، میں نے دیکھا کہ میرے معصوم بچے کا جیل میں کیا حال ہوا ہے۔ لیکن مُجھے معلوم تھا کہ یہ رہا ہو جائے گا، پورے محلے کی مسجدوں میں ہر جمعہ کو اس کی رہائی کے لیے خصوصی دعا ہوتی تھی۔‘

واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 30 سال قبل مسلح شورش کے بعد ایسے درجنوں کشمیری نوجوان ہیں جنھیں انڈیا کی مختلف ریاستوں میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ سازی کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا اور وہ دس سے پندرہ سال تک قید میں رہنے کے بعد ’باعزت بری‘ کیے گئے۔

ایسے قیدیوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ نئے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی قیدی ہیں جو ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور ٹرانسپورٹ کے نئے وسائل سے بھی واقف نہیں۔ تاہم بشیر بابا پہلے ہی کپمیوٹر میں ڈپلومہ کر چکے تھے اور جیل میں مزید تعلیم کے بعد وہ دیگر قیدیوں کی طرح بے بسی کے احساس کا شکار نہیں ہیں۔

’میرے چھوٹے بھائی نذیر بابا نے بہت دوڑ دھوپ کی۔ بہنوں کی شادی، والد کا علاج، اور پھر والد کا غم بھی اکیلے برداشت کیا۔ میرے کیس کی عدالت میں پیروی، گجرات کا بار بار سفر اور گھر کی ذمہ داریاں۔۔۔ اُس نے شادی بھی نہیں کی اور مجھے لکھا کہ میری رہائی کے بعد ایک ساتھ شادی کریں گے۔

You May Also Like

Notify me when new comments are added.

ہندوستان

عالمی خبریں

کھیل

فلمی دنیا