افغانستان: امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے، افغان حکام

افغانستان کے فوجی حکام کے مطابق امریکی فوج نے 20 برس بعد جب بگرام کا فوجی اڈہ چھوڑا تو انھوں نے بجلی بند کر کے رات کی تاریکی میں فضائی اڈے کے نئے افغان کمانڈر کو بتائے بغیر ایسا کیا، اور انھیں اس بارے میں امریکی افواج کے جانے کے کئی گھنٹوں بعد پتا چلا۔

جنرل میر اسداللہ کوہستانی جو بگرام کے نئے کمانڈر ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں (امریکی افواج) نے بگرام کے فوجی اڈے کو صبح تین بجے چھوڑا اور افغان فوج کو اس بارے میں کئی گھنٹوں بعد خبر ہوئی۔‘

پیر کے روز افغانستان کی فوج کی جانب سے میڈیا کو اس فوجی اڈے کا دورہ کروایا گیا جو امریکہ کی طالبان کو شکست دینے کی جنگ اور 9/11 کے حملوں میں ملوث القاعدہ کے عہدیداروں کو پکڑنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایسی افواہیں سُنیں کہ امریکہ نے بگرام چھوڑ دیا ہے اور آخرکار صبح سات بجے تصدیق کر سکے کہ انھوں نے بگرام کو واقعی چھوڑ دیا ہے۔‘

 

امریکہ نے گذشتہ جمعے کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے اگست میں فوج کے مکمل انخلا سے قبل افغانستان میں اپنے سب سے بڑے فضائی اڈے بگرام کو خالی کر دیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کی فوجی ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے افغان فوج کی جانب سے کی گئی اس شکایت کا جواب تو نہیں دیا لیکن انھوں نے گذشتہ ہفتے کے ایک اعلامیے کا اس کا ذکر ضرور کیا۔

اس اعلامیے کے مطابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے اپریل کے وسط میں افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد متعدد فوجی اڈوں کے انتظام کی منتقلی عمل میں لائی جا سکے گی۔ لیگٹ نے اس اعلامیے میں کہا تھا کہ ان کی جانب سے انخلا سے متعلق تفصیلات افغان رہنماؤں سے شیئر کی جائیں گی۔

 

’پہلے پہل ہمیں ایسے لگا کہ شاید یہ طالبان ہیں‘

افغان فوجی حکام کے مطابق افغان فوج کی جانب سے فضائی اڈے کا انتظام سنبھالنے سے قبل یہ اڈہ ڈاکؤوں کی چھوٹی سی فوج کے رحم و کرم پر تھا جنھوں نے بیرکوں میں لوٹ مار شروع کی اور پھر گوداموں تک پہنچ گئے جس کے بعد بالآخر انھیں یہاں سے بیدخل کیا گیا۔

دس سال سے افغان فوج سے منسلک عبدالرؤف کا کہنا تھا کہ ’پہلے پہل ہمیں ایسے لگا کہ شاید یہ طالبان ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے کابل ایئرپورٹ سے کال کر کے بتایا کہ ’ہم کابل ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔‘

ادھر جنرل کوہستانی نے اس بات پر زور دیا کہ افغان نیشنل سکیورٹی اینڈ ڈیفنس فورس طالبان کو حال ہی میں ملنے والی متعدد کامیابیوں کے باوجود اس قلعہ نما فوجی اڈے کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس فضائی اڈے میں پانچ ہزار قیدیوں کی ایک جیل بھی موجود ہے جس میں اطلاعات کے مطابق اکثر طالبان موجود ہیں۔

 

طالبان کی جانب سے حال ہی میں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ افغانستان کے مختلف اضلاع پر قبضہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آ رہا ہے جب نیٹو اور امریکی فورسز کا ملک سے انخلا شروع ہو رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے تک نیٹو کے اکثر فوجی خاموشی سے ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ امریکی فوجیوں کی آخری کھیپ ترکی کے ساتھ کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حفاظت کے معاہدے کی تکمیل تک یہیں رہیں گی۔

دریں اثنا صرف گذشتہ دو دنوں کے دوران سینکڑوں افغان فوجیوں نے طالبان سے لڑنے کی بجائے سرحد پار تاجکستان میں پناہ لی ہے۔ جنرل کوہستانی کا کہنا ہے کہ ’جنگ میں کبھی کبھار آپ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو آپ کو پسپائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔‘

جنرل کوہستانی کا کہنا تھا کہ افغانستان کی ملٹری اپنی حکمتِ عملی بدلتے ہوئے سٹریٹیجک اہمیت رکھنے والے اضلاع پر توجہ دے رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کچھ ہی دنوں میں ان کا انتظام واپس لیے لیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیسے کر پائیں گے۔

You May Also Like

Notify me when new comments are added.

ہندوستان

عالمی خبریں

کھیل

فلمی دنیا